کلام محمود مع فرہنگ

فہرست مضامین

    کلامِ محمود مَع فرہنگ
    پیشگوئی بابت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
    پیش لفظ
    ملفوضات
    عرضِ حال
    فہرست
    اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے
    پڑھ لیا قرآن عبدالحی نے
    میاں اسحق کی شادی ہوتی ہے آج اسے لوگو
    یاد ایام کہ تھے ہند پر اندھیر کے سال
    مثل ہوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنے کے دن
    وه قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم
    غصہ میں بھرا ہوا خُدا ہے
    جدھر دیکھو ابر گنہ چھا رہا ہے
    گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے
    دوستو ! ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن
    ہر چار سو ہے شہرہ ہوا قادیان کا
    اسے مولویو ! کچھ تو کرو خوف خدا کا
    یوں الگ گوشتہ ویراں میں جو چھوڑا ہم کو
    کیوں ہو رہا ہے خرم و خوش آج کل جہاں
    نہ کچھ قوت رہی ہے جسم و جاں میں
    نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں
    ظہور مہدی آخر زماں ہے
    محمد پر ہماری جاں فدا ہے
    باب رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا۔
    یا الہی ! رحم کر اپنا کہ میں بیمار ہوں
    اے میرے مولی ! میرے مالک ! میری جاں کی سپر !
    کوئی گیسو مرے دل سے پریشاں ہو نہیں سکتا
    وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب تھا
    میں نے جس دن سے ہے پیارے تیرا چہرہ دیکھا
    کیا جانتے کہ دل کو میرے آج کیا ہوا
    قصہ ہجر ذرا ہوش میں آئوں تو کہوں
    وه چہره ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو تو چھپا چھپا کر
    ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں
    آؤ محمود ! ذرا حال پریشان کر دیں
    مجھ سا نہ اس جہاں میں کوئی دل فگار ہو
    ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں
    وه نکات معرفت بتلائے کون
    مئے عشق خدا میں سخت ہی مخمور رہتا ہوں
    جگہ دیتے ہیں جب ہم ان کو اپنے سینہ و دل میں یہیں سے اگلا جہاں بھی دکھا دیا مجھ کو دل پھٹا جاتا ہے مثل ماہی بے آب کیوں
    یہیں سے اگلا جہاں بھی دکھا دیا مجھ کو
    دل پھٹا جاتا ہے مثل ماہی بے آب کیوں
    عہد شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ
    وه قید نفس دنی سے مجھے چھڑائیں گے کب
    درد ہے دل میں میرے یا خار ہے
    خدا سے چاہئے ہے لَو لگانی
    کیا سبب میں ہو گیا ہوں اس طرح زار و نزار
    دوڑے جاتے ہیں بامید تمنا سوئے باب
    اے چشمہ علم و ہدیٰ اے صاحب فہم و ذکا
    محمود ! بحال زار کیوں ہو ؟
    نہ مے رہے نہ رہے خُم نہ یہ سبوُ باقی
    مِل٘تِ احمد کے ہمدردوں میں غمخواروں میں ہوں
    مُحم٘د عربی کی ہو آل میں برکت
    آه دنیا پہ کیا پڑی افتاد
    ہے دست قبلہ نما لا اله الا الله
    غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں
    مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے
    تری محبت میں میرے پیارے ہر اک مصیبت اُٹھائیں گے ہم
    نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
    یا د جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو
    آریوں کو میری جانب سے سُنائے کوئی
    ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو
    مجھ سے ملنے میں انہیں عذر نہیں ہے کوئی
    میں تیرا در چھوڑ کر جاؤں کہاں
    طور پہ جلوہ گناں ہے وہ ذرا دیکھو تو
    حقیقی عشق گر ہوتا تو سچ٘ی جستجو ہوتی
    مَلک بھی رشک ہیں کرتے وہ خوش نصیب ہوں میں
    میرے مولیٰ مری بگڑی بنانے والے
    پیٹھ میدان دعا میں نہ دکھائے کوئی
    پرده زلفِ دو تا رخ سے ہٹالے پیارے
    کیوں غلامی کروں شیطاں کی خُدا کا ہو کر
    ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں
    میں تو کمزور تھا اس واسطے آیا نہ گیا
    صید و شکارِ غم ہے تُو مُسلمِ خستہ جان کیوں
    اہل پیغام ! یہ معلوم ہوا ہے مُجھ کو
    نہیں ممکن کہ میں زندہ رہوں تم سے جدا ہو کر
    مریم نے کیا ہے ختم قرآں
    دل مرا بے قرار رہتا ہے۔
    یارو ! مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار
    کو نسا دل ہے جو شرمندہ احسان نہ ہو
    ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا
    پوچھو جو اُن سے زُلف کے دیوانے کیا ہوئے
    بخش دو رحم کرو شکوے گلے جانے دو
    تو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہمسر ہی نہیں
    مرے ہمراز بیشک دل محبت کا ہے پیمانہ
    پہنچائیں در پہ یار کے وہ بال و پر کہاں
    سعی پیہم میری ناکام ہوتی جاتی ہے
    یہ خاکسار نابکار دلبر وُہی تو ہے
    تیرے در پر ہی میری جان نکلے
    ہے زمیں پر سر ہرا لیکن وہی مسجود ہے
    میں تمہیں جانے نہ دوں گا
    اک عمر گزر گئی ہے روتے روتے
    میں اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی
    خدایا اے میرے پیارے خُدایا
    مِرا دل ہو گیا خوشیوں سے معمور
    چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ
    کر رحم اسے رحیم ! میرے حال زار پر
    آه پھر موسم بہار آیا
    اے چاند تجھ میں نورِ خدا ہے چمک رہا
    دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل برمانے دو
    پڑھ چکے احرار بس اپنی کتابِ زندگی
    میری نہیں زبان جو اس کی زباں نہیں
    موت اس کی رَہ میں گر تمہیں منظور ہی نہیں
    ذرا دل تھام لو اپنا کہ ایک دیوانہ آتا ہے
    کل دوپہر کو ہم جب تم سے ہوتے تھے رخصت
    نہیں کوئی بھی مناسبت رہِ شیخ و طرز ایاز میں
    ہم کس کی محبت میں دوڑے چلے آئے تھے
    بادہ عرفاں پلا دے ہاں پلا دے آج تو
    یوں اندھیری رات میں اے چاند کو چمکا نہ کر
    یہ نور کے شعلے اُٹھتے ہیں میرا ہی دل گرمانے کو
    اک دن جو آہ دل سے ہمارے نکل گئی
    میری رات دن بس میں اک صدا ہے
    زخم دل جو ہو چکا تھا مدتوں سے مندمل
    ایمان مجھ کو دیدے عرفان مجھ کو دیدے
    گھر سے میرے وہ گلعذار گیا
    با دلِ ریش و حال زار گیا
    اے میری جاں ہم بندے ہیں اک آقا کے آزاد نہیں
    وہ میرے دل کو چٹکیوں میں مَل مَل کر یوں فرماتے ہیں
    اَبكِي عَلَيْكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ
    وہ یار کیا جو یار کو دل سے اُتار دے
    کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں
    ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا
    دست کوتاہ کو پھر درازی بخش
    اے حسن کے جادو ! مجھے دیوانہ بنادے
    كَمُ نَوَّرَ وَجْهَ النَّبِيِّ صَحَابُهُ
    تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے
    معصیت و گناه سے دل میرا داغدار تھا
    ہم نشیں تجھ کو ہے اک پر امن منزل کی تلاش
    اللہ کے پیاروں کو تم کیسے بُرا سمجھے
    درد نہاں کا حال کسی کو سُنائیں کیا
    يَا رَازِقَ الثَّقَلَيْنِ أَيْنَ جَنَاكَ
    شاخ طوبی پہ آشیانہ بنا
    بٹھا نہ مسند پہ پاس اپنے نہ دے جگہ اپنی انجمن میں
    نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں ساقی
    مرادیں لوٹ لِیں دیوانگی نے
    عشق و وفا کی راہ دکھایا کرے کوئی
    مَردوں کی طرح باہر نکلو اور ناز و ادا کو رہنے دو
    ہَوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے
    ذکرِ خدا پر زور دے ظلمت دل مٹائے جا
    مَسحُور کر دیا مجھے دیوانہ کر دیا
    ہو چکا ہے ختم اب چکر تری تقدیر کا
    چھوڑ کر چل دئے میدان کو دو ماتوں سے
    آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے
    عاشق تو وہ ہے جو کہ کہے اور سُنے تیری
    وہ گل رعنا کبھی دل میں جو مہماں ہو گیا
    وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا
    دل دے کے ہم نے ان کی محبت کو پالیا
    کُھلے جو آنکھ تو لوگ اس کو خواب کہتے ہیں
    آ آ کہ تیری راہ میں ہم آنکھیں بچھائیں
    سنانے والے افسانے ہما کے
    بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں
    عشق نے کر دیا خراب مجھے
    اے بے یاروں کے یارِ نگاہ لطف غریب مسلماں ہے
    عقبی کو بُھلایا ہے تو نے تو احمق ہے ہشیار نہیں
    حریمِ قدس کے ساکن کو نام سے کیا کام
    چاند چمکا ہے گال ہیں ایسے
    جو دل پہ زخم لگے ہیں مجھے دکھا تو سہی
    نِکل گئے جو تیرے دل سے خار کیسے ہیں
    تم نظر آتے ہو ذرّہ میں غائب بھی ہو تم
    اے شاہِ معالی! آبھی جا
    اِرادے غیر کے ناگفتنی ہیں
    زمیں کا بوجھ وہ سر پر اٹھائے پھرتے ہیں
    یہ کیسی ہے تقدیر جو مٹتے نہیں مٹتی
    آنکھ گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بیتاب ہے
    قید کافی ہے فقط اس حسنِ عالمگیر کی
    توبہ کی بیل چڑھنے لگی ہے منڈھے پہ آج
    سر پہ حاوی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی نہیں
    ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے
    جو کچھ بھی دیکھتے ہو فقط اس کا نور ہے
    اس کی رعنائی میرے قلبِ حزیں سے پوچھئے
    جونہی دیکھا انہیں چشمہ محبت کا اُبل آیا
    آؤ ! تمہیں بتائیں محبت کے راز ہم
    جب وہ بیٹھے ہوتے ہوں پاس میرے
    عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ
    کیا آپ ہی کو نیزہ چبھونا نہیں آتا
    لگ رہی ہے جہاں بھر میں آگ
    دُنیا میں یہ کیا فتنہ اُٹھا ہے مِرے پیارے
    کُفر کی طاقتوں کا توڑ ہیں ہم
    وُہ دل کو جوڑتا ہے تو ہیں دِلفگار ہم
    اُلفت اُلفت کہتے ہیں پر دل اُلفت سے خالی ہے
    اَرے مُسلِم ! طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے
    دل کعبہ کو چلا مِرا بُت خانہ چھوڑ کر
    ہے مدت سے شیطان کے ہاتھ آئی
    دِلبر کے در پہ جیسے ہو ، جانا ہی چاہیے
    ہے تاروں کی دُنیا بہت دُور ہم سے
    آدم سے لے کر آج تک پیچھا ترا چھوڑا نہیں
    میں نے مانا میرے دلبر تری تصویر نہیں
    مر رہا ہے بھوک کی شدت سے بچارہ غریب
    بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے
    دید کی راہ بتائی تھی ہے تیرا احسان
    کرو جان قربان راہِ خدا میں
    اے خدا ! دل کو میرے مزرعِ تقویٰ کر دیں
    میرے آقا ! پیش ہے یہ حاصل شام و سحر
    ہوئی طے آدم و حوّا کی منزل اُنس و قربت سے
    بَلا کی آگ برستی ہے آسماں سے آج
    ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے
    آمد کا تیری پیارے ہو انتظار کب تک
    جنابِ مولوی تشریف لائیں گے تو کیا ہو گا
    خُدا کی رحمت سے مہرِعالم افق کی جانب سے اُٹھ رہا ہے
    قدموں میں اپنے آپ کو مولا کے ڈال تُو
    دل دے کے مُشت خاک کو دلدار ہو گئے
    روتے روتے ہی کٹ گئیں راتیں
    اس کی چشم نیم وا کے مَیں بھی سرشاروں میں ہوں
    یا فاتحُ رُوحِ ناز ہو جا
    گو بحرِ گنہ میں بے بس ہو کر
    ہو فصل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو
    نکال دے میرے دل سے خیال غیروں کا
    پڑے سو رہے ہیں جگا دے ہمیں
    عشقِ خُدا کی مے سے بھرا جام لائے ہیں
    ہے بھاگتی دُنیا مجھے دیوانہ سمجھ کر
    لاکھ دوزخ سے بھی بِدتر ہے جُدائی آپ کی
    اے محمدؐ ! اے حبیبِ کردگار
    میرے تیرے پیار کا ہو رازداں کوئی نہ اور
    صُبح اپنی دانہ چیں ہے شام اپنی ملک گیر
    وہ علم دے جو کتابوں سے بے نیاز کرے
    گنا ہوں سے بھری دُنیا میں پیدا کر دیا مُجھ کو
    خَم ہو رہی ہے میری کمر جسم چُور ہے
    قطعات
    الہامی قطعہ
    حضرت مصلح موعودؓ کے تحریر کردہ اپنی بعض نظموں پر نوتس
    کلامِ محمود فرہنگ

صفحہ

کا

531